| میں نے اک خواب دیکھا ہے |
| جس میں نظم اک لکھی تھی |
| اے محبوب ! تجھ پر ، ترے حسن پر تھی |
| یا تجھ پر نہیں بلکہ اوہام کے اُن تلاطم پہ تھی |
| جن پہ میں سر بسر موجزن تھا |
| یا پھر اُس گہرے احساس کی مد پہ تھی |
| جو کہ ابہام صورت مری زندگی میں تھا آیا |
| یا اُن خیالات کی وحشتوں پر |
| جو اک خواہش بزمِ یاراں کے حامل تھے |
| جو کہ حاصل نہیں تھی لا حاصل تھی |
| یا یہ کچھ ایسی تفہیم حامل تھی |
| جو زندگی کو بیاں کر رہی تھی ، |
| بہت سارے عقدے جو وا کر رہی تھی ، |
| تو چاہت و ارمان ، جینے کی خُو |
| جیسی سب الجھنوں کی گرہ کھولتی تھی |
| بس وہ اک نظم تھی جو بہت خوب تھی۔ |
| میں نے جیسے سنائی تو اک شور برپا ہوا |
| سب سے پہلے تھی عنبر نے دی داد مجھ کو |
| تو فرحت نے آ کے گلے سے لگایا ، کہا |
| "بیٹے عثمان ، کیا خوب تم نے لکھا" |
| سبھی شاعر نظم سے متاثر ہوئے |
| مجھ کو تابش نے بھی داد دی اور |
| انور شعور اور انور نے دل کھول کے تالیاں تھی بجائیں |
| وہ اک نظم پہچان بنتی گئی |
| میں نے خواہش کی ، عثمان ادراک ہو |
| یہ نظم کیا ہے ، کیسی ہے ، کیونکر ہے ایسی ۔۔۔۔۔ |
| کوئی نظمِ آزاد تھی جو کہ راشد کے نقشِ قدم پر تھی |
| میں حسن کوزہ گر تھا جہاں کائنات ایک ملکہ تھی |
| میں نے مضمون پر غور کرنے کی کوشش کی |
| ایسے میں سب خواب پُھر سے اڑا |
| اور پھر آنکھ کھل سی گئی۔ |
| جانے کیا نظم تھی ، جانے عنوان کیا تھا |
| جو بیدار ہو کے ہے دیکھا تو میں ویسے عثمان تھا |
| ایک شاعر جو شاعر نہیں، ایک مجنوں جو مجنوں نہیں |
| ایک رانجھا کہ جو ہیر پیچھے کسی جھنگ کے دیس ہجرت نہیں کر گیا |
| میں جو سوہنی کا سرتاج بالکل نہیں تھا |
| میں جاگا ، تو دیکھا کہ میں ویسا ہی عام تھا |
| ایک کوچے میں بے کار ، جیون پہ تہمت |
| انہی ہالہ ، ہانہ کی تاریکیوں میں پڑا |
| یونہی بے رنگ ، روغن سے عاری |
| کہ جس میں مہک ہے نہ خوشبو نہ کچھ عکس ہے |
| اک سکوتِ مسلسل ہے اور رقص ہے۔ |
معلومات