آؤ ! تصویر تم کو دکھاؤں ذرا
نقش دل دار کا میں سناؤں ذرا
اس کا پورا بدن پھول و گلدان ہے
رنگ ، خوشبو ، صبا اس کی مسکان ہے
زلفیں اس کی ہیں الجھی ہوئی ٹہنیاں
خوب صورت ، حسیں اس کی دو پُتلیاں
اس کی پیشانی وسعت ہے میدان کی
جس کے نیچے دو آنکھیں ہیں حیران سی
اس کی آنکھیں ہیں جیسے کوئی انجمن
جن میں نرمی ہے بادل سی سایہ فگن
اور حدت ہے ان کی بہت دل شکن
یعنی آنکھیں چمن ہیں تو آنکھیں گگن
ناک چھوٹی سی ، ستواں سی دل دار کی
جس کے دو سمت پھیلاؤ رخسار کی
اس کی گالوں کے ہیں ایسے ایسے ترنگ
جیسے قوسِ قزح کے ہوں بکھرے سے رنگ
اس کے لب کی وہ سرخی ، ارے کیا کہوں !
ہلکی میک اپ کی برکی ، ارے کیا کہوں!
اس کے کانوں کا بُندہ وہ لعلِ گہن
مثلِ چنبیلی رنگت ہے رسمِ کہن
اس کے ہاتھوں کو دھو دھو وضو میں کروں
خواہش اتنی ہے کچھ گفتگو میں کرو
اس کے دیکھیں ہیں حصے یہی چار بس
چہرہ ، قد ، بازو ، پاؤں تو رخسار بس
میری تمثیل ناقص ہیں میں کیا کہوں
عام میرا قلم اس سے میں کیا لکھوں
یار اس کا بیاں مجھ سے ممکن نہیں
سچ ہے یہ جانِ جاں مجھ سے ممکن نہیں

0
67