| یہ دوست آئیں سبھی محفلِ ہنسائی ملے |
| یہ ساتھ میں بیٹھو کچھ تو آشنائی ملے |
| رہا ہمیں شوقِ بَلّے* کا تو بس اتنا |
| ہم آٹھوں دوست ملیں اور آشنائی ملے |
| تمہارے وصل کے لمحات یوں تھے اترے صنم |
| کہ جیسے پوہ اک میں سرسرِ جُلائی** ملے |
| خموش بیٹھے تھے لیکن کمال خواہش تھی |
| وہ ہم سے بولے ہمیں قوتِ گوائی ملے |
| بھلا لڑائی میں کرتا تو کیسے کر پاتا |
| سبھی رقیب ہمیں خوب آریائی ملے |
| گئے تھے ڈھونڈنے ہم وصل کو وہاں لیکن |
| ہر ایک سانس پہ لمحات تھے قصائی ملے |
| *بَلّے بازی (کرکٹ) |
| ** جولائی |
معلومات