یہ دوست آئیں سبھی محفلِ ہنسائی ملے
یہ ساتھ میں بیٹھو کچھ تو آشنائی ملے
رہا ہمیں شوقِ بَلّے* کا تو بس اتنا
ہم آٹھوں دوست ملیں اور آشنائی ملے
تمہارے وصل کے لمحات یوں تھے اترے صنم
کہ جیسے پوہ اک میں سرسرِ جُلائی** ملے
خموش بیٹھے تھے لیکن کمال خواہش تھی
وہ ہم سے بولے ہمیں قوتِ گوائی ملے
بھلا لڑائی میں کرتا تو کیسے کر پاتا
سبھی رقیب ہمیں خوب آریائی ملے
گئے تھے ڈھونڈنے ہم وصل کو وہاں لیکن
ہر ایک سانس پہ لمحات تھے قصائی ملے
*بَلّے بازی (کرکٹ)
** جولائی

0
54