جب ماں پوچھتی ہے 

"تم ٹھیک ہو بیٹا"

"آنکھیں ایسی کیوں ہو گئی ہیں"

اور الوداع کرتے ہوئے کہتی ہے 

"اپنی صحت کا خیال رکھنا"

"زیتون لیتے جاؤ، سر پہ مالش کرنا روز ۔"


ان باتوں کی شدت اور محبت کی گہرائی سامنے کھڑے بیٹے کو( جو کسی لڑکی کے لیے آنسو بہاتا ہے ) زندہ درگور کر دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ انساں مرا ہوا ہو۔ یہ کشمکش آخر خود کیفیتی کی ایک ایسی زندگی سے روشناس کراتی جو بس خود اذیتی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ بھلا کیوں!

کیوں اس کرب کے باوجود وہ اپنے سامنے موجود مقدس ہستی کو اگنور کرتے ہوئے مسلسل اسی کے بارے سوچا جا رہا ہوتا ہے جس کے ہجر کی سوچ اسے شب کو جاگنے پہ مجبور کیے دیتی ہے۔ وہ ماں تو نہیں، پھر ماں سے زیادہ توجہ کی مستحق کیونکر ہو گئی!


0
70