میں نہیں جانتا وہ کون ہے ، کیا لگتی ہے |
کیا کہوں ! وہ تو حقیقت میں صبا لگتی ہے |
میں نے ہر انگ میں بہتا ہوا پایا اس کو |
پھر بھی ہر آن جدا یار جدا لگتی ہے |
میں تری ذات کی خاطر تھا جنوں میں نکلا |
تیری خاطر تو ہر آندھی بھی ہوا لگتی ہے |
مجھ کو یاد آتا ہے ہر لفظ ترا گونج کی طرحَ |
گونج بھی ایسی کہ گردابِ ندا لگتی ہے |
ظلمتِ شب کے جگارے تو ہیں لازم عثماں |
یہ تو وہ شے ہے جو عاشق کو سدا لگتی ہے |
معلومات