میں نہیں جانتا وہ کون ہے ، کیا لگتی ہے
کیا کہوں ! وہ تو حقیقت میں صبا لگتی ہے
میں نے ہر انگ میں بہتا ہوا پایا اس کو
پھر بھی ہر آن جدا یار جدا لگتی ہے
میں تری ذات کی خاطر تھا جنوں میں نکلا
تیری خاطر تو ہر آندھی بھی ہوا لگتی ہے
مجھ کو یاد آتا ہے ہر لفظ ترا گونج کی طرحَ
گونج بھی ایسی کہ گردابِ ندا لگتی ہے
ظلمتِ شب کے جگارے تو ہیں لازم عثماں
یہ تو وہ شے ہے جو عاشق کو سدا لگتی ہے

0
72