عشق آلودہ ہوا ہے میرا
سب ہی فالودہ ہوا ہے میرا
جب سے اِس دشتِ جنوں میں آیا
ذہن فرسودہ ہوا ہے میرا
پھر چلوں کیا اُسی دکھ کی جانب!
درد آسودہ ہوا ہے میرا
اس غمِ درد نے چھیدا مجھ کو
تن خراشیدہ ہوا ہے میرا
اب رگوں سے نا لہو ٹپکے گا
روگ مفصودہ ہوا ہے میرا

0
55