مجھ سے ملنے کو جب بھی وہ آئی
ساتھ اپنے وہ لائی تنہائی
مجھ سے کہتی تھی عشق کیسا ہے
میرے حصے اگر ہے رسوائی
کیوں ہو رہتے یہاں وِرانے میں
کیا تمنا تمہیں یہاں لائی
آج تنہا اداس بیٹھے ہو
بوئے گل کیوں نا اب خوشی لائی
اب وہ شہرت کہا ہے عثماں کی
مجھ سے آگے ہے اب تو رسوائی

0
66