وہ یومِ جمعہ اک مبارک سا دن تھا، |
وہ اُنِیّس اگست ،وقت تھا پانچ یا پھر |
سوا پانچ ۔جب آگہی نے مجھے آ |
کے چوما، اُسی وقت سے لے کے اب تک |
مرا جسم اک شعلۂ بے طرب ہے |
کہ جیسے کوئی ماہی بے آب تڑپے |
یہ احساس مارے چلا جا رہا ہے |
کہ میں وقت کے کن فسانوں میں کھوتا |
چلا ہی گیا تھا اور اب لوٹ آنے |
کو پلٹا تو پھر کوئی رستہ ہی دکھتا |
نہیں ہے۔مگر پھر بھی زندہ ہوں ،اب تَو |
میں زندہ رہوں گا ،جیوں گا برابر۔ |
میں جیتا رہوں گا ۔مرا نام لوگوں |
کو ازبر نہ ہو پھر بھی اس بے نشاں زیست |
سے خوبصورت حسیں سی لگن مجھ |
کو ہوگی ۔ |
وہ دل کش پری گر مرے مان |
توڑے گی تو بھی، مَیں جینے کی خُو میں |
مَیں جیتا رہوں گا۔ یہ احساس لے کے |
میں کس کس اذیت میں مارا گیا ہوں |
بہت مضطرب ہوں کہ یزداں کی نظروں |
میں تاڑا گیا ہوں! |
دعا ہے کہ ایسے ہی جلتا رہوں میں |
یہ مشکل ہے یارا یہ پُرسوز ہے، پر |
یہ رستہ مجھے ماہِ کامل بنادے |
گا ، ایسا یقیں بارہا آ رہا ہے |
مجھے |
سو |
میں خوش ہو رہا ہوں ، |
میں خوش ہو رہا ہوں |
معلومات