| مرے آنسو ابھی اے یار بہنے دے |
| یہ غم مجھ کو اکیلے یار سہنے دے |
| طلب تصویرِ جاناں کی ہوئی تھی اک |
| کہا اس نے کہ ایسے کام رہنے دے |
| محبت ، اک انوکھا تجربہ تھا یہ |
| کہا اس نے یہ آنسو یار بہنے دے |
| ہوئے ہلکان تم کیوں اس قدر ہو یار |
| ابھی تو درد کی ٹیسوں کو اٹھنے دے |
| میں پھر آؤں گا زخموں کو نیا کرنے |
| ابھی پچھلے مرے زخموں کو بھرنے دے |
| تو عثماں خود ہی الفت کا بنا تھا یار |
| بس اب چپ رہ ،مجھے غم سب یہ سہنے دے |
معلومات