مرے آنسو ابھی اے یار بہنے دے
یہ غم مجھ کو اکیلے یار سہنے دے
طلب تصویرِ جاناں کی ہوئی تھی اک
کہا اس نے کہ ایسے کام رہنے دے
محبت ، اک انوکھا تجربہ تھا یہ
کہا اس نے یہ آنسو یار بہنے دے
ہوئے ہلکان تم کیوں اس قدر ہو یار
ابھی تو درد کی ٹیسوں کو اٹھنے دے
میں پھر آؤں گا زخموں کو نیا کرنے
ابھی پچھلے مرے زخموں کو بھرنے دے
تو عثماں خود ہی الفت کا بنا تھا یار
بس اب چپ رہ ،مجھے غم سب یہ سہنے دے

0
121