آج تو اس دلِ برباد پہ ہنسنا آیا
آج کچھ یاد کیا ، یاد پہ ہنسنا آیا
جب میں الفاظ کے معنی کی ہوں تہہ تک پہنچا
شعر پر ملتی ہوئی داد پہ ہنسنا آیا
جب نئے عشق میں اک شخص علَم لے کے اٹھا
اک نئے ڈوبتے من باد پہ ہنسنا آیا
وہ جو سورج کی تپش سے ہوا آلودۂ رنگ
مجھ کو اُس بگڑے پری زاد پہ ہنسنا آیا
ٹھنڈے آفس میں دیا شوق سے مزدور کو حق
جب لگی دھوپ تو پھر ناد پہ ہنسنا آیا
اِس غمِ جاناں میں عثمان بھی کچھ سیکھ گیا
اب نئے کرب کی افتاد پہ ہنسنا آیا

0
54