| اِس وصلِ بے وجہ کا نشانہ بہت ہوا |
| اے ہجر آ، کہ ملنا ملانا بہت ہوا |
| ہر ایک دعویٰ میرا تھا مٹّی میں مل گیا |
| اک بار اُن کا مجھ کو بلانا بہت ہوا |
| بیزار سا، اداس سا لمحہ تھا کھِل اُٹھا |
| اُن کی طرف سے شکوے سنانا بہت ہوا |
| اُس نے بچھڑتے وقت کہا بائے بائے دوست |
| آنکھوں میں آنسوؤں کا گھرانہ بہت ہوا |
| ناراضی دیکھ اُن کی ، ہوئے اشک جو رواں |
| اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا |
| عثمان یوں نہ روند ،نہ بے مول خود کو کر |
| اِس درجہ، اُن سے، دل کا لگانا بہت ہوا |
معلومات