اِس وصلِ بے وجہ کا نشانہ بہت ہوا
اے ہجر آ، کہ ملنا ملانا بہت ہوا
ہر ایک دعویٰ میرا تھا مٹّی میں مل گیا
اک بار اُن کا مجھ کو بلانا بہت ہوا
بیزار سا، اداس سا لمحہ تھا کھِل اُٹھا
اُن کی طرف سے شکوے سنانا بہت ہوا
اُس نے بچھڑتے وقت کہا بائے بائے دوست
آنکھوں میں آنسوؤں کا گھرانہ بہت ہوا
ناراضی دیکھ اُن کی ، ہوئے اشک جو رواں
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
عثمان یوں نہ روند ،نہ بے مول خود کو کر
اِس درجہ، اُن سے، دل کا لگانا بہت ہوا

0
90