کب تلک یوں معاف ہی کیا جائے
بدلہ پورا ہی اب لیا جائے
کب تلک مصلحت لبادہ رہے
کیوں نا ظالم سے اب لڑا جائے
جو کبھی ہو سکا نہیں ممکن
کیوں نا وہ کام اب کیا جائے
جام اٹھانے کی گر نہیں ہے سَکت
اُن کے ہاتھوں سے اب پیا جائے
کب سے محفل سے چل دئیے وہ تو
ہم بھی چلتے ہیں اب اُٹھا جائے
یہ مری انگلیاں فُگار ہیں اب
کب تلک درد ہی لکھا جائے
آؤ عثمان! اب کچل دیں سب
ظلم کب تک یونہی سہا جائے

0
80