اس عشق کے الاؤ کو جلنے نہیں دیا |
ماں باپ کی دعاؤں نے مرنے نہیں دیا |
آزردگی ، جنون ، بیداری ، لہو اور اشک |
ہم نے کوئی سراغ بھی مٹنے نہیں دیا |
الفاظ ، درد ، یاد ، تڑپ ، شکل اور وفا |
ہم نے کوئی چراغ بھی بجھنے نہیں دیا |
دیکھا تو اپنی ذات میں تنہا کھڑے تھے ہم |
ہم نے کوئی بھی قافلہ لٹنے نہیں دیا |
لائے تھے ہم دلیل میں دیوانِ میر پر |
اک حرف عشق و پیار کا کہنے نہیں دیا |
ہم نے ہر ایک رنج پہ مرہم لگایا تھا |
ہم نے تمہارے زخموں کو رِسنے نہیں دیا |
ہم بھی اذیتوں کے سفر پر نکل پڑے |
ہم کو بھی تیرے شہر نے رہنے نہیں دیا |
عثمان ہم نے وقت کا پہیا الٹ دیا |
چپ چاپ خود کو دھارے میں بہنے نہیں دیا |
معلومات