قاصد کے اُس کلام کے خنجر ہی لے چلیں
ان سے چھپا کے غم کے سمندر ہی لے چلیں
اب وہ کہاں پلائے گی چائے مجھے کبھی
چل ذہن میں بس ایک یہ منظر ہی لے چلیں
بیٹھے رہے ہیں برسوں اسی در کے سامنے
شاید وہ ایک دن کو مجھے گھر ہی لے چلیں
اب مرحلہ ہے ایسا اے قاصد چلا تُو جا
اب تو مُنال پر مجھے دلبر ہی لے چلیں
اس بند تنگ دنیا سے دم گھٹتا ہے مرا
اس کائنات سے مجھے باہر ہی لے چلیں
وہ تو پہنچ سے دور چلے بھی گئے حنیف
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

0
62