قاصد کے اُس کلام کے خنجر ہی لے چلیں |
ان سے چھپا کے غم کے سمندر ہی لے چلیں |
اب وہ کہاں پلائے گی چائے مجھے کبھی |
چل ذہن میں بس ایک یہ منظر ہی لے چلیں |
بیٹھے رہے ہیں برسوں اسی در کے سامنے |
شاید وہ ایک دن کو مجھے گھر ہی لے چلیں |
اب مرحلہ ہے ایسا اے قاصد چلا تُو جا |
اب تو مُنال پر مجھے دلبر ہی لے چلیں |
اس بند تنگ دنیا سے دم گھٹتا ہے مرا |
اس کائنات سے مجھے باہر ہی لے چلیں |
وہ تو پہنچ سے دور چلے بھی گئے حنیف |
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں |
معلومات