اس قوم کے باب حکمرانی میں ایک دور مشرف کا دور ۔۔۔ تقریباً پندرہ برس قبل۔
ایک ایسا دور جس میں Raymond Devis جیسا دشمن ہاتھ آنے کے باوجود رہا ہو کے واپس چلا جاتا ہے۔ Raymond Devis ایک ایسا ملک دشمن ایجنٹ جو بلوچستان کو تباہ و برباد کرنے کے اراداہ سے آیا تھا۔ جو موساد، ایم نائن اور سی آئی اے کا مہرہ تھا۔
قوم چیختی رہی، چلاتی رہی، اپنا درد، اپنی آہ اور نالاں نارسا بلند کرتے کرتے ٹوٹ کر بکھر گئی کہ Raymond Devis کو واپس نہ کیا جائے۔
مگر امریکہ کے غلام حکمرانوں نے رات کے اندھیرے میں دنیاوی قوت کے حامل امریکہ( جسے وہ دیوتا مانتے تھے) کے حوالے کیا کہ یہ قوم اپنے جذبات میں ان دو ٹکے کے اشاروں پہ ناچنے والے غلام حکمرانوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
آج پندرہ برس بعد، اسی سر زمین پہ ایک دشمن ایجنٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ایسے ملک کا ایجنٹ جس کے ساتھ قیام مملکت سے ہی نہ صرف دشمنی رہی بلکہ چار جنگیں پہ لڑی جا چکی۔
ایک ایسا جو بلوچستان کو خانہ جنگی کا مرکز بنا کے ملک کو دہشت گردی میں جھونکنے آیا تھا۔
پندرہ برس کے اندر یہ قوم، ملت ، ریاست اتنی بکھر گئی کہ آج یہ ازلی دشمن کے آگے جھک گئی۔
آج یہ فیصلہ کرنے والے بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ قوم بھی خاموش ہے۔ آج تو واویلا بھی نہیں ۔ یہ اتنی مردہ ہوگئی ہے ، اس کو اتنا نچوڑا گیا ہے کہ آج اس کی آواز تک نہیں نکل رہی۔
ملک و ریاست کے دشمن کو سر عام پھانسی کی بجائے رہا کیا جا رہا ہے۔ اور سب مہر بہ لب ہیں۔ کسی شیر کی دھاڑ نہیں سنائی دے رہی ۔ کسی ماں، بہن اور بیٹی کا نالا سنائی نہیں دے رہا. یہ قوم اتنی مردہ کیسے ہو سکتی ہے۔
کیا یہ آخری دنوں کا سفر کر رہی ہے۔
اس کی حالت غرناطہ کے عوام کے آخری تین سالوں کے مماثل ہے۔ آج خاموش رہنے والو، جان لو کہ بحیرہ قلزم تک ایک بھی شخص نہیں پہنچ پاتا ہے جب ملت کا سقوط ہوتا ہے۔
عثمانیہ سلطنت کے جہاز سمندروں پہ راج کرنے کے باوجود بھی اشبیلیہ کے ساحلوں پہ دم توڑتی زندہ لاشوں تک پہنچنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔
بحیرہ احمر کے پانیوں کا سفر طے کرنے والے ملوکی ریاستوں کے باشندے اکثر کناروں پہ ڈوب جاتے ہیں۔
تاریخ کے اسباق دیکھتے کیوں نہیں تم۔
"اندھیری رات کے مسافر"
کی داستان کا ہر ایک لفظ چیخ کے کہہ رہا ہے کہ جب غرناطہ ڈوبتا ہے تو عبداللہ کے خبیث النفس فرڈیننڈ کے غلام وزراء پہلے ہی برس اپنے آقا کے فرمان سے جہنم واصل ہو تے ہیں۔
جب ریاست پہ قبضہ ہوتا ہے تو مائیں افریقہ کا سفر کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر جاتی ہیں۔
جن کے ساتھ یہ سب ہوا، وہ ہم جیسی قومیں ہی تھیں۔ ایسی بے حس، منتشر، اداس، خاموش اور بے بس ۔
مسٹر حمید گل
تم غلط کہتے تھے ،ہاں تم غلط کہتے تھے
یہ قوم پھر سے کھڑی نئی ہوئی ،آؤ آ کے دیکھ لو۔ تم کہا کرتے تھے، کہ اب اس قوم دوسرا مشرف نئی مسلط ہوگا۔ اب یہ قوم زندہ و جاوید ہوگی۔ تم غلط تھے۔
آج سب کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ آج پھر Raymond Devis کو واپس کیا جا رہا ہے۔ آج پھر قوم کو ذلت کی اتھاہ گہرائی میں ڈالا جا رہا ہے
اور یہ قوم ، یہ قوم آج اس پہ ماتم کناں بھی نہیں ہے۔ یہ پہلے سے زیادہ گر چکی ہے۔
دیکھ لو اس نے عظمت کے راستے پہ قدم نہیں بڑھایا ۔
یہ پستی کی طرف دوڑی ہے۔ پندرہ برس کے اندر اس قوم پہ کچھ ایسے نادان مسلط کر دیئے گئے کہ جنہوں نے ماضی کی غلطیوں کو غلطی نہیں بلکہ روش قرار دے دیا۔
ہاں ، یہ سب ہو رہا ہے۔ اور تم جیسا کوئی ایک بھی نہیں جو کہ اسے جنجھوڑ کے یاد دلائے کہ تم ایسے نئی ہو، تمہیں جانبازوں والی زندگی جینی ہے۔
نہیں ہے ایسا
کوئی ایک بھی نہیں
معلومات