عجب آج ان کے کرم ہو رہے ہیں
کہ مَیں اور وہ آج ہم ہو رہے ہیں
وہ جلوہ دکھاتے ہیں پلکیں جھکا کر
یہ کیسے ستم اے صنم ہو رہے ہیں
ترے ساتھ گزرے تھے لمحے جو خوش خوش
ترے بعد وہ سب الَم ہو رہے ہیں
بس اب یار یہ ہیں چھلکنے ہی والے
مرے آنسو اتنے گرم ہو رہے ہیں
مجھے اپنی دھڑکن پہ قابو نہیں ہے
قریب ان کی جانب قدم ہو رہے ہیں
یہاں عشق و چاہت کا قصہ نہ کہنا
سنا ہے یہاں سر قلم ہو رہے ہیں

0
87