حشر کے دن سا ہے ابھرا آفتاب
دیکھئے لیتے ہیں کیسا وہ حساب!
پاؤں اُس کے جل رہے ہیں دھوپ میں
وہ پری وش جو کہ ہے رشکِ سحاب
راہ تیری تَک رہا تھا دشت میں
جاگتی آنکھوں نے دیکھے کیسے خواب!
آج کُھل کے رو پڑے بچھڑے ہوئے
آج ہر عاشق اٹھائے ہے حجاب
اب اٹھا دو سارے پردے جان من
برپا کردو آج تم اک انقلاب

0
88