سنگ و وحشت میں اب با صفا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
وہ کہ مہتاب خد میں پروئے ہوئے |
اک حسیں زلف بھی ہیں سموئے ہوئے |
دل کو احساس میں بھی ڈبوئے ہوئے |
وہ بھی مستی کی محفل میں کھوئے ہوئے |
دیکھ اُس کو ، بتا بے حیا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
وہ جو پریوں کی صورت کا عرفان ہے |
اُس کا چہرہ بھی دیکھو تو ویران ہے |
میں ہوں رویا کہ یہ ان کا فرمان ہے |
میری آنکھوں کا آنسو بھی حیران ہے |
دیکھ حالت یہ میری ہنسا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
تو محبت کا منکر نہیں تھا کبھی |
پر وفاؤں کو حاضر نہیں تھا کبھی |
جھوٹ کہنے میں شاطر نہیں تھا کبھی |
میں اذیت کا شاعر نہیں تھا کبھی |
ایسا جو کر گئی وہ سبا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
میری چاہت کا الزام تم نے سہا |
اس عقیدت کا دشنام تم نے سہا |
ایک رشتہ سا بے نام تم نے سہا |
میری غلطی کا انجام تم نے سہا |
پر ہوئی چاک جس کی قبا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
تھا جو خوابوں کا گلشن سجایا ہوا |
تیری صورت کو دل سے لگایا ہوا |
اپنی چاہت کو تم سے چھپایا ہوا |
شعر اک خاص تم کو سنایا ہوا |
تو ہی کہہ دے کہ اب بے صبا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
تجھ کو عنوان غزلوں کا کس نے دیا |
تجھ کو دل جان نظموں کا کس نے کیا |
ہجر تیرے کا زہراب کس نے پیا |
تیری خاطر ہے وحشت میں کتنا جیا |
آج کہتے ہو تم یہ " مرا کون ہے؟" |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
سب ڈرامے محبت کے تم دیکھتی |
کتنی چاہت سے یہ پھول تم کاڑھتی |
ہو پریشان کوئی تو تم سوکھتی |
ہر اذیت کے آنسو کو تم پونچھتی |
پر ، مگر اس سفر میں تھکا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
تم نے کوئی بھی دھوکہ نہیں ہے دیا |
ایک تحفہ بھی میرا نہیں تھا لیا |
ہاں مرا چاک کوئی نا تم نے سیا |
اس مسافت میں تنہا یہاں آ گیا |
بس تو اتنا بتا دے بہا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
ہاں طبیعت مری میں خرابی سی ہے |
تجھ کو دیکھوں تو پھر یہ شرابی سی ہے |
مت سمجھ یہ محبت حبابی سی ہے |
یہ مری نظم تجھ کو جوابی سی ہے |
تیری خاطر زماں میں پسا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
تیری خاطر سسکتا و روتا رہا |
نیند اور چین اپنا ہے کھوتا رہا |
اور تو مست خوابوں میں سوتا رہا |
چند دن نا ، یہ برسوں ہی ہوتا رہا |
تیری خفگی سے پھر بھی ڈرا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
دل کی حالت ہے ایسی کہ رنجور ہے |
میں بھلا دوں مگر دل یہ مجبور ہے |
ہر خوشی پر ترا غم جو مقہور ہے |
ہو زیارت جہاں ، کونسا طور ہے |
اس اذیت میں یارا پھنسا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
سب تبسم ترے غیر میں بٹ گئے |
ہم کو دیکھا تو غصے سے پھر پھٹ گئے |
یہ مرے دوست بھی ہجر پر ڈٹ گئے |
اور بے بس سے ہم بزم سے ہٹ گئے |
تیرے پہلو میں لیکن جیا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
یاد ہے ایک دن تم نے یہ تھا کہا |
بن محبت کے ہے کون یارا جیا |
او غلط کہہ گیا، تم نے یہ تھا کہا |
جاؤں عثمان تم سے نہیں واسطہ |
تیرے کہنے کے آگے دبا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
یاد ہیں مجھ کو ساری وہ باتیں تری |
مشک و عنبر سے تر شب براتیں مری |
باغِ مستی میں کٹتی وہ راتیں ہری |
اور ہمراہ تھا چاند ، گھاتیں ، پری |
اب خیالات میں پھر بچا کون ہے |
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے |
معلومات