اب میں سونا چاہوں گا ماں
اچھے سے رونا چاہوں گا۔
ایک غبار ہے جسم و جاں میں
گھائل کرتا جاتا ہے جو،
آنسو چیخ رہے ہیں اندر
کوئی قلق ہے کھائے جائے
اب میں رونے لگ جاؤں گا
اور میں چپ اب رہ نہیں سکتا
بس اب مجھکو اجازت دے دو
اب میں جا کے سو سکتا ہوں؟
سترہ سال کا بانکا لڑکا
آنکھ میں وحشت کا اک دریا
یار سموئے، ٹوٹتا جائے
ضبط کی آخری حد کو چھو کر
اب وہ دور ہے جانا چاہے
ماں سے ایک ہی بات اب پوچھے
ماں اب کیا میں جا سکتا ہوں؟
ماں اب اس کا دکھ کیا دیکھے
ان پڑھ بڑھیا سوچ میں گم ہے
کیسے روکے اس مجنوں کو
کیا سمجھائے دیوانے کو
کیسے اس کو کہہ دے کہ تو،جا،
جا سکتا ہے، تو رو سکتا ہے
تو اب جا کے سو سکتا ہے
پھر اک دم سے ماں نے کہا یہ
بیٹا اب میں سونے جاؤں
تو بھی جا کے سو سکتا ہے
بس یہ کہہ کے ماں اٹھ نکلی،
آزردہ سا وہ ماں کو دیکھے
اب وہ دلاسہ دینے والی
خود بھی جا کے روئے گی، عثماں
کاش وہ ماں سے سب یہ چھپاتا
کاش کہ امّاں نہ رونے جاتی

58