وہ سارا کچھ ہی جھوٹ تھا
وہ پیار ، چاہ ، الفتیں
مذاق تھے تخیّلات
وہ ، اور ، سب فضول تھا
اُس اک حسیں مذاق میں
مذاق سب ہے بن گیا
مری وفا شعاری بھی
تری وہ کج کلاہی بھی
سبھی ہیں یار طعنہ زن۔
وفا کے راستے میں تھا
کیے تھے کیسے بھول پن
مگر وہ دوست میرے اب
یہ کہنے آگئے مجھے
کہ اب وہ سارے بھول پن
تمہارے عیب بن چکے
گناہ ہیں تمہارے وہ
سزا کو کاٹنا ہے اب
کہ دور بھاگنا ہے اب۔
عجیب ہیں یہ لوگ بھی
محبتوں کی فصل کو
لگانے آگ آ چلے
ہاں! مانتا ہوں جو یہ فَصَل
کبھی ہری نہیں ہوئی
مگر خدا ہے جانتا
کہ بیج بدگماں نا تھے
وہ میری ساری وحشتیں
وہ تیری بے رخی ، ستم
وہ سب تھا گردشِ جنوں
وہ آہ ، آنسو کُو بہ کُو
تمام راز کھل گئے
مگر خدا گواہ ہے
میں آج تک جنون میں
کبھی غلط نہیں گیا
نشہ نہیں کیا کبھی
شراب چکھ نہیں سکا
میں تھک گیا تھا زیست سے
مگر سنو ، سنو ، سنو !
میں رشتے ناطے چھوڑ کر
کہیں کو مر نہیں گیا۔
تمام لوگ آتے ہیں
وہ نام لے تمہارا پھر
عجب عجب ستاتے ہیں
مگر یہ سب سنا ، سہا
بکھر مُکر نہیں گیا۔
ہاں! ٹھیک ہے تمہارے سب
ہی فیصلے درست ہیں
تمہاری اپنی زندگی
ہے جیسے چاہو تم جیو
مگر گلہ یہی ہوا
کوئی جو آ کے کہتا ہے
کہ تم ہو بے وفا کوئی
تو اُس کو روک پانے کی
نا مجھ کو کچھ سکت کوئی
وفا کروں تو کیا کروں
یہ سارا کچھ ہی جھوٹ ہے
یہ پیار ، چاہ ، الفتیں
یہ سارا کچھ ہی جھوٹ ہے۔

0
59