ہم محبت میں تری روز بکھر جاتے ہیں
قتل کرنے کے تمہیں لاکھ ہنر آتے ہیں
تم تو سورج ہو جو نظروں سے لپٹ جاتا ہے
ہم وہ تارے ہیں جو مدھم سے نظر آتے ہیں
ایک افواہ ہوئی بزم میں آئیں گے صنم
تیزی قدموں سے سبھی یار ادھر آتے ہیں
ان چراغوں نے مجھے رات تسلسل سے کہا
ہم کو معلوم ہے پروانے کدھر آتے ہیں
وقت کی خاص ضرورت تھی کہ ہم ساتھ نہ ہوں
یہ جو جاتے ہوئے ہم یار نظر آتے ہیں
ہم نے چاہا تھا یہی یار بہت دور رہیں
ملنے کے خواب پھر آنکھوں میں اتر آتے ہیں
پھر وہاں گونجتے رہتے ہیں مصرعے صدیوں
وہ جہاں شعر سنا کر کے گزر آتے ہیں
دیکھیے ایک یہ شاعر بھی ہیں عثمان ہے نام
دل میں ہے درد لیے ساتھ جگر آتے ہیں

0
78