| یاد لیے پھر ہم بھی جلے ہیں تیری بھونی گلیوں میں |
| اشک بہی ہے ، رنج ہوئی ہے اور کیا ہونی گلیوں میں |
| سب کو لوگ میسر تھے پھر ، سب کی اپنی خوشیاں تھیں |
| ایک ہمی آوارہ نکلے شہر کی سُونی گلیوں میں |
| مت پوچھو۔۔۔ حالت کیسی تھی پھر ، کیا کیا سڑکیں ناپی تھیں |
| ایک تھا لمبا سایہ اپنا اور تھے بُونی گلیوں میں |
| کچھ تو من میں کھوج ہے اپنے ، آخر کچھ تو لینا ہے |
| جانے کیا ہے لینا ہم کو دُونی دُونی گلیوں میں |
| ایک پری جو میرے دل میں بستی تھی عثمان میاں |
| کتنی پیاری لگتی تھی وہ شونی مونی ، گلیوں میں |
معلومات