| دسمبر آتا تو مجھ کو اک فکر یہ بھی ہوتی |
| جو تحفہ لینا ہے تیری خاطر |
| کہاں سے پیسوں کو جوڑنا ہے |
| کہاں سے کیا چیز دیکھنی ہے |
| تمہارے قد پر سجے گا کیسا |
| تمہاری آخر پسند کیا ہے |
| میں ایسی سوچوں میں یوں گھرا سا |
| کہ بعد اس کے ہے وہ مہینہ |
| کہ جس میں تم نے حسین دھرتی پہ سانس لی تھی |
| مجھے یقیں ہے |
| تمہاری آمد پہ سب پرندوں میں شور ہوگا |
| تمام پریوں میں ایک ہلچل مچی تو ہوگی |
| تمہاری آمد پہ شادیانے بجے تو ہوں گے |
| خبر یہ ہوگی |
| فلاں کے گھر میں فلاں کی بیٹی نے آنکھ کھولی |
| ہے اتنی پیاری وہ اتنی پیاری |
| کہ جیسے اس کائنات کا حسن ایک جاں میں سمٹ ہو آیا |
| ہر ایک نے پھر مٹھائی کھا کے بہت سے تحفوں کا ڈھیر سا اک لگایا ہوگا |
| مگر دسمبر یہ ایسا آیا |
| کہ جس میں تیری ہر اک نشانی جلا رہا ہوں |
| میں لوحِ دل کو بجھا رہا ہوں |
| میں خود کو کب کا مٹا چکا تھا |
| بس اب میں تجھ کو مٹا رہا ہوں |
| تمام رشتے بھلا رہا ہوں |
معلومات