رنگ اترا ہے ترا تجھ کو بتاؤں گا نہیں |
جا مرے دوست! تجھے شیشہ دکھاؤں گا نہیں |
ہم سے اُس نے بھی عداوت کو چھپا رکھا تھا |
جو یہ کہتا تھا ، کبھی پیار چھپاؤں گا نہیں |
تو اگر دیکھ کے رخ پھیرتا پھرتا ہے اب |
پُر سکوں رہ کہ تجھے اب کے پکاروں گا نہیں |
ناصحا! تو بھی کہانی کو نہیں سن پایا |
آج کے بعد تجھے یار رلاؤں گا نہیں |
تو اگر روٹھ کے بیزار ہوا پھرتا ہے |
میں بھی اب کال تجھے کوئی ملاؤں گا نہیں |
ایک چھوٹی سی شرارت پہ ہو اتنے غصہ |
تو بھی جا یار تجھے اب کے ستاؤں گا نہیں |
آج دریا پہ سمندر کا فسوں تھا طاری |
آج عثماں نے کہا شعر سناؤں گا نہیں |
معلومات