اب آج تو کھلتے ہی چلے جاتے ہیں اسرار
یہ وصل کا لمحہ ہے کہ بارانیٔ انوار
میں نے تو بہت ہنس کے گلے اس کو لگایا
سب موت سے کرتے تھے مجھے یار خبردار
اک عرصہ ہے بیتا کہ نہیں اس کو ہے دیکھا
وہ مجھ سے ہے بیزار کہ میں اُس سے ہوں بیزار
ہر شخص ہے پھرتا یاں فتٰوات اٹھا کر
نوچے ہی چلے جاتے ہیں سب میری یہ دستار
ہم عشق زدوں سوختہ جانوں کے وسیلے
باقی ہے ابھی بزم میں کچھ گرمیٔ احرار
دی اس نے صدا بزم میں " عثمان ادھر آ!"
ہم کہتے رہے " مافی ہو سرکار، اے سرکار"
بس آنکھ کھلی رکھنے کو آئے نہیں ہم یاں
بیدار ہوں عثمان، تُو بیدار ہو بیدار

0
61