ذہن نے یہ کہا "ڈوبے نا سفینہ کوئی"
جا کے سیکھ آؤ نا، مرنے کا قرینہ کوئی
زہر قاتل تھا مگر پھر بھی پیا ہے ہم نے
تجھ سے دوری کا یہ جینا بھی تھا جینا کوئی
ہم نے ہر نس کو اذیت کے دیے ہیں نشتر
حوصلہ ہو تو مری لاش کو سینا کوئی
وقت قاتل تھا اور احساس بھی جاں لیتا ہے
خودکشی کر وہ چلا، پڑھ دے شبینہ کوئی
وہ بھی اِس زہر کے اک جام کو پی کر ہے مرا
وہ جو کہتا تھا کبھی زہرِ نہیں پینا کوئی
اک تھا عثمان ترے شہر میں پھرتا تھا کبھی
وہ یہ کہتا تھا مری طرح نا جینا کوئی

58