| ذہن نے یہ کہا "ڈوبے نا سفینہ کوئی" |
| جا کے سیکھ آؤ نا، مرنے کا قرینہ کوئی |
| زہر قاتل تھا مگر پھر بھی پیا ہے ہم نے |
| تجھ سے دوری کا یہ جینا بھی تھا جینا کوئی |
| ہم نے ہر نس کو اذیت کے دیے ہیں نشتر |
| حوصلہ ہو تو مری لاش کو سینا کوئی |
| وقت قاتل تھا اور احساس بھی جاں لیتا ہے |
| خودکشی کر وہ چلا، پڑھ دے شبینہ کوئی |
| وہ بھی اِس زہر کے اک جام کو پی کر ہے مرا |
| وہ جو کہتا تھا کبھی زہرِ نہیں پینا کوئی |
| اک تھا عثمان ترے شہر میں پھرتا تھا کبھی |
| وہ یہ کہتا تھا مری طرح نا جینا کوئی |
معلومات