میں نظر کی قید میں بند تھا، تُو خزاں کا مجھ سے نا پوچھ اب |
یوں بہارِ حُسن سنا مجھے کہ خوشی میں اب تَو رُلا ہی دے |
ہے ابھی بھی آرزو جاوداں، ہے ابھی بھی حسرتِ دل و جاں |
وہ جو ہے حسینہ شبابِ گل اُسے اب تُو مجھ سے ملا ہی دے |
میں ابھی بھی غمزۂ جُستجو ہوں زمانے کی گل و بُو ہے تُو |
کوئی جلوہ کر، کبھی مل مجھے ،مری چاہتوں کا صلہ ہی دے |
یہی غم ترے، یہی آہٹیں ،یہی جُستجو ،یہی پیار ہے |
تُو اچھل ذرا درِ یار پر ،کبھی ایک جلوہ دکھا ہی دے |
معلومات