غم مناؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
دل دِِکھاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
پھول ، کلیاں ، گلابوں سے کہہ آیا ہوں
پھر میں آؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
چاند ، سورج ، ستارو یہ تم جان لو
تم کو چھوؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
اے چمن تیری رنگت حسین و عجب
لطف اٹھاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
میں نے بامِ فلک کو یہ کہہ بھیجا ہے
تم پہ آؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
اے تقی میر ، غالب کی غزلوں تمہیں
خوب گاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
باتوں باتوں میں یزداں سے یہ کہہ دیا
سر جھکاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
آج ارشاد کوئی غزل ہی نہیں !
پھر سناؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
بن پیے آج عثمان کہہ یہ گیا
جام اٹھاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم

0
44