کس قدر درد کو آنکھوں میں وہ بھر جائے گا |
تری گلیوں سے جو ناکام گزر جائے گا |
کتنی دلدل ہے، کثافت ہے، مصیبت ہے یہاں |
ترا دیوانہ تو رستے میں ہی مر جائے گا |
میں نے چاہا تھا کہ بلبل کا ترنم میں سنوں |
پر ابھی جانبِ صحرا یہ سفر جائے گا |
دل یہ بزدل ہے ترے سامنے بولے گا نہیں |
ویسے تو سامنا رستم کا بھی کر جائے گا |
اُن کا کہنا ہے نشہ ہے یہ محبت کا طلسم |
اُن کو ڈر تھا کہ نشہ میرا اتر جائے گا |
مجھ کو اِس ظلمتِ خورشید میں چاہت ہے تری |
ترے آنے سے مرا بخت سنور جائے گا |
تیرا عثمان اسی وہم میں مر جائے گا |
تو نہیں آئے گا ،اک بار اگر جائے گا |
معلومات