میں ڈوبا تھا جنونِ تخت میں آہستہ آہستہ
ملی وحشت مجھے پھر دشت میں آہستہ آہستہ
جو خوشیاں تھیں وہ لحظہ میں گزر جانے کو آئی تھیں
مگر گزرا ہے لمحہ ، کَشت میں آہستہ آہستہ
جو لمحے ہجر کے ہیں چاہتا ہوں پل گزر جائیں
سبھی گھڑیاں مگر اس وقت میں آہستہ آہستہ
ابھی تو سر پہ تارے ہیں ، ابھی سے ہے تھکن کیسی
چلے گا اک شفق بھی دشت میں آہستہ آہستہ
جو قلت تھی وہ کثرت کی بنی ہے اک مثال اب تو
ہوا مقبول عثماں ، ہفت میں آہستہ آہستہ

0
82