| میں ڈوبا تھا جنونِ تخت میں آہستہ آہستہ |
| ملی وحشت مجھے پھر دشت میں آہستہ آہستہ |
| جو خوشیاں تھیں وہ لحظہ میں گزر جانے کو آئی تھیں |
| مگر گزرا ہے لمحہ ، کَشت میں آہستہ آہستہ |
| جو لمحے ہجر کے ہیں چاہتا ہوں پل گزر جائیں |
| سبھی گھڑیاں مگر اس وقت میں آہستہ آہستہ |
| ابھی تو سر پہ تارے ہیں ، ابھی سے ہے تھکن کیسی |
| چلے گا اک شفق بھی دشت میں آہستہ آہستہ |
| جو قلت تھی وہ کثرت کی بنی ہے اک مثال اب تو |
| ہوا مقبول عثماں ، ہفت میں آہستہ آہستہ |
معلومات