اے مرے ہمدم
مَیں نے
کتنی راتیں تھیں
بِتائیں ایسے
کہ تسلی تجھے دے کے رویا،
کتنے
شدت بھرے لمحات تھے
جن میں ، مَیں نے
ترے درد کی ہر
آنچ کو محسوس کیا،
کتنے ٹوٹے ہوئے الفاظ تھے
جو تیرے لیے
میں نے جوڑے
کہ تو ہنس دے یارا،
کہ تیرا درد ختم ہو جائے ،
کہ تیرا جسم
سُکوں پائے
سہولت جانے۔
کتنے ہنگامِ سحر تھے
کہ جب آنسوؤں نے مرے
رب کی
درگاہ پہ دستک دی تھی
جس میں چاہا تھا یہی
تیرے لیے
لوٹ آئے ہنسی تیری
مگر کچھ ایسا
کبھی ہو نا سکا۔
تو نے بھٹکایا تھا
وحشت
بھرے جنگل میں
خود کو
اور میں تجھے ڈھونڈ کے واپس
اسی اُجڑے ہوئے زندان پہ
لا بھی نا سکا،
مجھ کو افسوس
ہے اے یار کہ میں نے
رو کر،
کتنے سجدوں میں فقط
تیرا سُکوں مانگا تھا
اور
مجھ گناہگار کی کوئی بھی صدا
تیرے کسی کام
نہیں آ پائی۔
مجھے افسوس ہے ہمدم!
تم جو بھٹکے تھے
کبھی دشت
میں وحشت لے کر
تب میَں تجھے
واپس نہیں
لے آیا تھا۔
میں بھی نادم سا ہوں
اور
تم بھی تو بیزار سے ہو
اور کیا چاہتے ہیں یہ بھی ،
دونوں کو نہیں ہے معلوم،
بس اک درد کی لَے ہے کہ
جس میں بہے جاتے ہیں ۔
درد آشفتہ ہیں دونوں کے
یہاں دونوں ہی
اپنے اپنے
رنج و غم یار
پئے جاتے ہیں۔
زندگی کے کسی پیرائے میں
جینے کی ضرورت ہے اُنہیں
بس اسی بات پہ دونوں ہی
جئے جاتے،
جئے جاتے ہیں۔
میری خواہش ہے کہ اس
درد میں اک بار ملیں
دونوں آشفتہ سے
اک دوجے
کو تھپڑ ماریں،
کہ تشدد پہ اتر آئیں ،
کوئی چاقو اٹھائے
تو کوئی
پتھر کا سہارا لے کر ۔
دونوں اجسام لہو میں بھیگیں
اور پھر جسم سے بہتے
ہوئے خوں کو دونوں
مزے لے کے تکے جائیں
ہنس ہنس کے مرے جائیں
اور پھر اس خواب کی
تکمیل ہو ایسے کہ تمسخر
سے سبھی زخم ، مدح بن جائیں
اور ہر آہ ، یہاں واہ بنے
(مسکرائیے)

0
64