| یہ سب غم ،دکھ ،غزل اور حزن گاتے جا رہے ہیں |
| مگر پھر بھی دِوانے اب ہنساتے جا رہے ہیں |
| اگرچہ پَر ہیں زخمی، دل شکستہ، جان بے جاں |
| پرندے پر ہوا کو اب اُڑاتے جا رہے ہیں |
| ہے سب کو علم اس رستے خسارے ہیں خسارے |
| مگر فرہاد آتے ، گنگناتے جا رہے ہیں |
| وہ جو مجذوب پھرتے تھے محبت کے پجاری |
| وہ سب قول و عمل پر اب بلاتے جا رہے ہیں |
| جو آوارہ جنوں تھے ، دشت رقصاں تھے کبھی جو |
| وہی شہروں کو اب آ کر بساتے جا رہے ہیں |
| جو تھے لاہور میں ناصر کبھی، ساغر کبھی جو |
| وہ شب دیدہ ہر اک بستی جگاتے جا رہے ہیں |
| ہم اس رسمِ وفا کیشی کے *وارث* بن گئے اب |
| ہمیں یہ *ہیر* عثماں یوں سناتے جا رہے ہیں |
معلومات