| محفلِ یار اک بہانا تھا |
| اصل تو مِل کے مسکرانا تھا |
| میں نے خود ہی بتائی تھی یہ خَبَر |
| اب محبت کا کیا چھپانا تھا |
| مجھ کو جب " آپ" وہ بلاتے تھے |
| ہائے ہائے! کیا زمانا تھا |
| میری پلکیں جھپکنا بھولی تھیں |
| تیرا ہونٹوں کا بس دبانا تھا |
| میں تو فوراً ہی یار پہنچا تھا |
| جب بھی ان کو مجھے بلانا تھا |
| اب میں منظر کشی کروں کیسے |
| کیا ہی ان کا مسکرانا تھا |
| مانتا ہوں یہ کام مشکل تھا |
| اُن نگاہوں سے دل لڑانا تھا |
| ہائے! کیا کیا بتاؤں تم کو اب |
| سال کے بعد کیا جتانا تھا |
| سب کے چہرے انہی کی جانب تھے |
| اُن کا محفل میں کیا ہی آنا تھا |
| اک تخیل کے گھر میں رہتے تھے |
| کتنا اچھا مرا ٹھکانا تھا |
| پھر خوشی ہی خوشی تھی چہرے پر |
| اُن کی یادوں کا گدگدانا تھا |
| ہم بھی عہدِ وفا کے حامی تھے |
| دل محبت کا کارخانا تھا |
| ہائے عثمان کیا محبت تھی |
| کتنا دلکش سا وہ فسانا تھا |
معلومات