ہمارے ہاتھ کا دھاگہ کہیں گھاگھر نہ ہو جائے |
ہمارا کانچ کا برتن ترا گاگر نہ ہو جائے |
ابھی جذبوں کی برکھا ہے ، ابھی تو چاند راتیں ہیں |
ابھی مشکل پڑے گی جب ، تُو پھر لاغر نہ ہو جائے! |
جو بیٹھا ہے خا موشی سے اسے چھیڑو نہ تم یارو |
کوئی دریا اچھل کر پھر کوئی ساگر نہ ہو جائے |
یہ اتری کیسی تنہائی ، یہ کیسی یاد آئی ہے |
کہیں غالب نہ چھڑ جائے ، کہیں ساغر نہ ہو جائے |
ارے لاہور میں بڑھتی ہوئی وحشت یہ عثماں کی |
کہیں ناصر نہ بن جائے ، کہیں ساغر نہ ہو جائے |
معلومات