ہمارے ہاتھ کا دھاگہ کہیں گھاگھر نہ ہو جائے
ہمارا کانچ کا برتن ترا گاگر نہ ہو جائے
ابھی جذبوں کی برکھا ہے ، ابھی تو چاند راتیں ہیں
ابھی مشکل پڑے گی جب ، تُو پھر لاغر نہ ہو جائے!
جو بیٹھا ہے خا موشی سے اسے چھیڑو نہ تم یارو
کوئی دریا اچھل کر پھر کوئی ساگر نہ ہو جائے
یہ اتری کیسی تنہائی ، یہ کیسی یاد آئی ہے
کہیں غالب نہ چھڑ جائے ، کہیں ساغر نہ ہو جائے
ارے لاہور میں بڑھتی ہوئی وحشت یہ عثماں کی
کہیں ناصر نہ بن جائے ، کہیں ساغر نہ ہو جائے

0
65