تیری یادوں سے کام ہوتے ہیں
سو پھر ان میں خرام ہوتے ہیں
ہم نومبر کے پہلے پہلے دن
تجھ سے پھر ہم کلام ہوتے ہیں
پھر سے لکھتے ہیں ایک خط تم کو
جس میں پیہم سلام ہوتے ہیں
یہ مہینہ بھی کتنا ارزاں ہے
جس میں پتے تمام ہوتے ہیں
یاد ہے تم ہمارے آقا تھے
عشق میں سب غلام ہوتے ہیں
یہ مہینہ خزاں کا موسم ہے
اس میں دل کو جذام ہوتے ہیں
کتنے چاہت بھرے سے لمحے پھر
زندگی پر حرام ہوتے ہیں
کتنی تیزی سے بنتے ہیں اُلّو
وہ جو ذہنی امام ہوتے ہیں
ہر گدا اور شاہ نم دیدہ
غم کے ہر جگ قیام ہوتے ہیں
ایک جانب بے زاری ہوتی ہے
ایک جانب او ہام ہوتے ہیں
وہ ہمیشہ ہی ہوتے ہیں رائٹ
پیار میں یہ نظام ہوتے ہیں
میں بتاؤں کہ کون ہارا ہے
"تنگ جس پر ایام ہوتے ہیں"
اب نومبر کے پہلے پہلے دن
اب تو عثماں خیام ہوتے ہیں

0
33