| شعر کی بحر کے اوزان کا قاتل نکلا |
| اپنی ہی ذات کے وجدان کا قاتل نکلا |
| امتحاں میری نا کامی کا تھا تکتے ہوئے منھ |
| سو خوشی پانے کے امکان کا قاتل نکلا |
| دی تسلی بھی بہت اور دلاسہ بھی کیا |
| اور پھر پاس کے اذہان کا قاتل نکلا |
| میں نے خود طاری ہے کی مرگِ ضوابط عثماں |
| اپنے ہی جسم کا ایمان کا قاتل نکلا |
| میں نے دستک کی کئی بار محبت کےلیے |
| اور عثمان کے دل جان کا قاتل نکلا |
معلومات