شعر کی بحر کے اوزان کا قاتل نکلا
اپنی ہی ذات کے وجدان کا قاتل نکلا
امتحاں میری نا کامی کا تھا تکتے ہوئے منھ
سو خوشی پانے کے امکان کا قاتل نکلا
دی تسلی بھی بہت اور دلاسہ بھی کیا
اور پھر پاس کے اذہان کا قاتل نکلا
میں نے خود طاری ہے کی مرگِ ضوابط عثماں
اپنے ہی جسم کا ایمان کا قاتل نکلا
میں نے دستک کی کئی بار محبت کےلیے
اور عثمان کے دل جان کا قاتل نکلا

0
67