درد ہے، رنج ہے، اذیت ہے |
جلتی بجھتی مری طبیعت ہے |
نیند سے عاری شب کی شب ہے مری |
دل سے رونے کی یار نیت ہے |
کتنی کوشش کی، خط نہ لکھ پائے |
مجھ پہ کتنی ہی یار دہشت ہے |
یہ جو میں ہوں خرابیٔ عالم |
میری نسبت سے ساری غایت ہے |
آج پھر یاد ان کی گھیر آئی |
آج پھر غم کی یار دعوت ہے |
دو دنوں سے ہے آنکھ تکتے ہوئے |
اس قدر انتظارحضرت ہے |
کاش میسج وہ بھیج دیں اک بس |
سب اکارت یہ، پھر تو امرت ہے |
کیسے لکھوں کہ مجھ سے بات کرو |
اُن کے انداز سے حقارت ہے |
دو محبت کے میٹھے میٹھے بول |
بس یہی دل کی یار قیمت ہے |
غم دیے ہیں ارب کھرب اُس نے |
اتنا پاس اُس کے مال و ثروت ہے |
اک قمر اُس پہ مر مٹا تھا کوئی |
اتنی برتر سی اُس کی جلوت ہے |
تھا مہر، جس کو روند ڈالا تھا |
اُن میں اتنی بڑی جسارت ہے |
مرمرا کی روایتوں کا امیں |
وہ مصر کی سی اک ثقافت ہے |
گنگ ہوجائیں بولنے والے |
اُس کی دلکش بہت بلاغت ہے |
سارے ہمراز اُس کے بندے ہیں |
کتنی عمدہ سی یہ سیاست ہے |
سانس خوشبو سا لگنے لگتا ہے |
کتنی برتر تری حکومت ہے |
لکھتا جاؤں گا تیرے بارے میں |
یہ سخن تیری ہی ودیعت ہے |
آ کے طعنے لگا گئے ناصح |
کتنی اچھی یہ کی عیادت ہے |
تیری آہٹ کو جان لیتا ہوں |
بس اِسی چیز میں مہارت ہے |
زندگی خواب ہے دوانے کا |
زندہ رہنے کی کیا ضرورت ہے |
لوٹ جاؤ مری قسم تم کو |
دھوکہ دینے میں کیا نفاست ہے |
اک محبت ،جنوں ہے سرمایہ |
کتنی ارزاں مری معیشت ہے |
ایک لمحے کا بس تخیل ہے |
اتنی ننھی سی اک مسافت ہے |
اب زمانے کی فکر کیا کرنی |
جو میسر تری رفاقت ہے |
میرے جذبات میں فسانے ہیں |
تیرے جذبات میں صداقت ہے! |
ہے کمینوں کا بھی کمینہ بڑا |
وہ جو اک داعییٔ شرافت ہے |
میرے اشعار بے وجہ سے ہیں |
حسن اتنی بڑی لیاقت ہے |
وصل تھا، ہجر ہے ،مرا ہمسر |
اک قیامت تھی، اک قیامت ہے |
خود سے روٹھے ہوئے ہیں خود سے ہم |
ہم نے اپنی بھی کی مذمت ہے |
اب زمیں تنگ ہوگئی مجھ پر |
دیکھ یزداں کی کیا مشیت ہے |
یار جلدی سے رونے لگتے ہیں |
اک خشیت سی اک خشیت ہے |
عشق اور حسن سے پرے رہنا |
کتنی اچھی سی یہ نصیحت ہے |
میں نہیں ملنے والی سو جاؤ |
اُس کی مجھ کو یہی ہدایت ہے |
یاد تیری کسک کا باعث ہے |
تیری غم سے یہ کیسی نسبت ہے |
اُس نے مجھ سے وفا نہیں کی ہے |
مانتا ہوں وہ ایک عورت ہے |
اُس نے کھل کر نہیں ہے دھتکارا |
بس یہ ابہام کی ہی کثرت ہے |
سارے جذبات سیدھے کہہ ڈالے |
یہ ہماری ہی یار جرأت ہے |
ایک ہی سلسلہ ہے آدم کا |
جسم و جاں میں یہ ایک وحدت ہے |
وہ تو ہر اک سے بات کرتے ہیں |
ہنس کے ملنا تو اُن کی عادت ہے |
اُن کا نام آئے چونک پڑتا ہوں میں |
اِس قدر اُس سے مجھ کو رغبت ہے |
تم ہو اچھے بھلے سے عثماں جی |
بس امارت نہیں ہے غربت ہے |
ناز اُس کے اٹھانا چاہوں میں |
اِس میں آخر کو کیا قباحت ہے |
یہ محبت کی داستاں اپنی |
اک شرارت ہے، اک شرارت ہے |
وہ ابھی تک نہیں ہیں آ پائے! |
میری آنکھوں میں ایک حیرت ہے |
بے وفائی وہ کر نہیں سکتے |
میری آنکھوں میں یار حیرت ہے |
یہ مرے شعر ہیں جہاں تک بھی |
بس وہاں تک ہی میری شہرت ہے |
آج تم یاد ہو نہیں آئے |
آج غم سے ذرا سی فرصت ہے |
وہ ملے ایسے جیسے اپنا ہو |
آج تک ایک ہی یہ حسرت ہے |
کہہ رہی تھی دغا کرو گے تم |
"مرد ہو، مرد کی یہ فطرت ہے" |
غم کی شب کٹتی کیوں نہیں آخر |
آج عثمان کیوں طوالت ہے |
معلومات