| تُجھ کو اے یار کیا، کیا غم ہے؟ |
| تیرا کردار گر مُنظّم ہے |
| وہ اگرچہ حسین و خوبرو سی |
| پر خدا اُس سے تو مقدم ہے |
| گر میسر ہے تجھ کو صحبتِ خیر |
| پھر بھلا کیسا یار ماتم ہے |
| منزلیں تجھ کو مل ہی جائیں گی |
| گر عمل تیرا یار پیہم ہے |
| دل یہ ڈرتا ہے دشتِ ناری سے |
| یاد رب کی بس ایک شبنم ہے |
| میں نے سنت سجائی چہرے پر |
| میری داڑھی پہ کیوں تو برہم ہے |
| کیوں عمل تیرا کچھ نہیں عثماں |
| ویسے کہنے کو تُو تو عالم ہے |
معلومات