تُجھ کو اے یار کیا، کیا غم ہے؟
تیرا کردار گر مُنظّم ہے
وہ اگرچہ حسین و خوبرو سی
پر خدا اُس سے تو مقدم ہے
گر میسر ہے تجھ کو صحبتِ خیر
پھر بھلا کیسا یار ماتم ہے
منزلیں تجھ کو مل ہی جائیں گی
گر عمل تیرا یار پیہم ہے
دل یہ ڈرتا ہے دشتِ ناری سے
یاد رب کی بس ایک شبنم ہے
میں نے سنت سجائی چہرے پر
میری داڑھی پہ کیوں تو برہم ہے
کیوں عمل تیرا کچھ نہیں عثماں
ویسے کہنے کو تُو تو عالم ہے

0
62