زیست میں ہے وقت نے وہ دور برپا کر رکھا
اک سمندر نے ندی پر زور برپا کر رکھا
سنسناہٹ دل پہ طاری اور بدن آزردہ جاں
ایک خاموشی نے ہے سب شور برپا کر رکھا
وہ ہمیں دے اک اذیت اور پھر احسان دے
اس تماشے نے ہے دل میں چور برپا کر رکھا
پوہ کی ہے آخری شب ، ہے اندھیرا ہر طرف
تیری یادوں نے مگر اک نور برپا کر رکھا
اپنے دل میں شب کے آخر اترا اپنا ہے خدا
ہم نے تو ہے بن جلے اک طور برپا کر رکھا
وحشتیں ہیں بڑھتی جاتیں ان کی باتوں سے مری
اور لپٹتا ان سے ہوں میں ، ڈور برپا کر رکھا
شب کے کوئی دو بجے دیدار ہوتا ہے مجھے
اس لیے عثماں نے شب کا جور برپا کر رکھا

0
60