فرض کرو ہم اہل علم ہیں ، فرض کرو ہم پڑھتے ہیں
فرض کرو یہ دونوں باتیں ، جھوٹی ہیں ہم ڈرتے ہیں
فرض کرو یہ چہرے اپنے علم کے گیت سناتے ہیں
فرض کرو ہم جہل کو اپنے دل میں خوب چھپاتے ہیں
فرض کرو تم ، پڑھنے کے ہم ڈھونڈتے لاکھ بہانے ہیں
فرض کرو ہم علم کے وارث ، علم کے ہی مستانے ہیں
فرض کرو کہ ہار کے جینا بھی تو ایک عنایت ہے
فرض کرو یہ ہارنا اپنا ،جھوٹی ایک روایت ہے
فرض کرو یہ رونا دھونا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو ، ہے علم حقیقت ، باقی سب شے مایا ہو
فرض کرو عثمان نے پڑھنا یارا کب کا ختم کیا ہے
فرض کرو تم ، تہمت ہے کہ علم کا رستہ رسم کیا ہے

0
87