محبت اپنے جوبن کو رہی تھی
خوشی ملنے کی اتنی ہو رہی تھی
میں جب گاؤں کو پہنچا تھا لہور سے
وہ بڑھیا تب پنیری بو رہی تھی
وہ تب اس کے تو آنسو تھے چمک آئے
مرے زخموں کو وہ جب دھو رہی تھی
مَیں اس کے رونے پر رو نا دوں سُو وہ
وہ بڑھیا چھپ چھپا کے رو رہی تھی
مَیں اُس کے ماتھے کو ہوں چوم آیا
وہ میٹھی سی نندیا سو رہی تھی

0
91