غرناطہ 


سقوط غرناطہ 

وہ سیاہ باب وہ کرب وہ احساس 

میں وہاں نہیں تھا۔ غرناطہ پہ لٹیروں نہ میرے پیدا ہونے 5 یا 6 سو سال پہلے قبضہ کیا۔ 

مگر آج بھی سقوط غرناطہ کا خیال آتا ہے تو دل چیخ اٹھتا ہے۔ 

اور پھر احساسات کا تسلسل جب بنگلہ دیش تک پہنچتا ہے تو روح کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔


آج عیسائی ریاستوں کی فلاح کی بات کرنے والے ظالمو!

تاریخ پڑھ لو ۔

عیسائیت کی نرم دلی اور منظم پن کی دلیلیں دینے والو

ایک دفعہ بس ایک اندھیری رات کے مسافر پڑھ لو


نسیم حجازی کی کتاب 

کلیسا اور آگ کا مطالعہ کر لو۔

اگر تم چیخ نہ اٹھو، اگر تمہارے جسم تھرتھرا نہ جائیں۔ 

اگر تہماری روح کانپ نہ جائے۔

تو اپنی ضمیر کی خبر لینا۔ اگر تاریخ کے ان حقائق کو جان لینے کے بعد بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں ، تمہارے جذبات تمہیں پر سکون رہنے دیں ۔ تو اس بات کا یقین کر لینا کہ تم مردوں سسے بد تر ہو۔ تمہارے ضمیر کب کے مر چکے ہیں۔ تمہاری انسانیت کا قلعہ قمع ہو چکا ہے۔ 


کیوں آخر سبق نہیں لے رہے ہم تاریخ سے۔ سقوط غرناطہ سے تاریخ کے اندوہناک باب کا آغاز ہوا ۔ وقت دوڑتا گیا۔ یہ.قوم ۔ یہ ملت اپنے ضمیر کھو رہی۔ سقوط بغداد ہوا۔ اس قوم میں شعور کی چمک پیدا نہ ہوئی دانشور چیختے رہے۔ مفکر اپنی پکار کا واویلا کرتے رہے۔ 

جری دل سپاہ سالار اپنے خون کے آخری قطرے تک اس ملت کے اتحاد کے لیے چیختے رہے۔ 

لیکن یہ قوم سوئے رہی۔ اس کی نیند گہری ہوتی گئی۔ یہ عیاشی و بدکرداری میں شیطان کے کارندوں سے بھی آگے ہو گئی۔


اس کو جبل الطارق کے چھن جانے کا درد نہ ہوا۔ اس میں بغداد کی تباہی بھی دیکھنے کے بعد بھی اجتماعیت کا احساس نہ ہوا۔ یہ ہارون رشید کے دور کی خوشحالی کی متمنی بھی نہ ہو سکی۔ یہ طارق کے اس ولولے، ہمت اور جذبے کو بھی نہ چھو سکی۔ 

یہ بکھرتی گئی۔ لاکھوں لوگ اس کو ایک کرنے پہ جان. دیتے رہے۔

لیکن یہ عثمانیہ جیسے عظیم مرکز پہ بھی جمع نہ ہو سکی۔

 

دنیا کے ایک خطہ میں چند پرخلوص مجاہد اس قوم میں اشتراکیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔  ایک دھرتی حاصل کی جسے پاک کہا گیا۔


مگر یہ اشتراک وقتی تھا، جذباتی تھا۔ جنونی تھا۔ وہ جنون، وہ جذبہ بوڑھا ہوا تو اشتراک اپنی موت آپ مر. گیا۔ 

سقوط ڈھاکہ ہوا۔


ہائے بد بختی اس قوم کی! 

اس نے غرناطہ و بغداد کی تاریخ کو دہرا دیا۔

اس نے اپنے کردار پہ لگے داغوں میں ایک اور طاغوتی داغ کا اضافہ کر لیا۔ 


میں کس کس بات کا رونا روتا رہوں۔ کس بات پہ ماتم کرتا پھروں۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد چند آنسوؤں گرے ۔ چند لوگوں کی دل دوز چیخیں سنائی دی۔ چند لوگوں کی روح چھلنی ہوئی۔ 

باقی ساری ملت مگر مچھ بن گئی۔ 

عراق، ایران، فلسطین، برما، شام اور ایسے کئی ممالک تباہ و برباد ہوگئے۔ قذافی، یاسر عرفات،صدام، ملا عمر، شاہ فیصل جیسے دسیوں سپاہ سالار اس قوم کو جنجھوڑتے ہوئے اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے۔ 


مگر یہ قوم جسے ملت بننا تھا رقص و سرود کی محفل میں سرمست ہے۔ یہ آج بھی کلیسا میں جلتی آگ پہ اعتراض اٹھانے کی بجائے اس کی تپش کو رحمت قرار دی رہی ہے۔ 

یہ آج بھی مذہب سے بہت دور ملوکیت پرستی میں رچ بس چکی ہے۔ 

یہ آج we are common across borders کے نعرہ لگا کے خود کا باوقار محسوس کر رہی ہے۔ 

اس نے سبق نئی سیکھا۔ اس کا شعور بکھر گیا۔ اس کی صلاحیت چھن گئی۔ اس کی روایات غرق ہو گئیں۔ یہ اپنے دشمنوں کو دجلہ و فرات میں غرق کرنے والی قوم ۔۔۔ شاید۔۔ 

اپنی اقدار، روایات اور ولولے غرناطہ سے نکلتے ہوئے بحیرہ احمر میں ڈبو کے آئی ہے۔ 

اے تاریخ کے مسافروں! بس ایک درخواست ہے، اس کی عظیم داستان پڑھنا اور پھر اس قوم کا زوال پڑھنا ۔ اگر تم نے اس ملت کے عروج کا سبب جان لیا اور اس ملت کے زوال کے مرکبات کو سمجھ لیا۔ تو تم اپنی قوم کو درست کرکے ، ان غلطیوں سے پاک کرکے دنیا پہ راج کر سکتے ہو۔ قیامت تمہاری سطوت کا پرچم ہوگا۔ 

مگر اس قوم جیسا نہ ہونا۔ اسے 7 سو سال ہوگئے۔ یہ قوم مردہ ہو کے پڑی ہے۔ اس کا ملت کا نعرہ پاش پاش ہے۔ 

"یہ قوم تاریخ کے چوراہے پہ آ کے سو گئی۔ اس کے بگل بجانے والے مر گھپ گئے اور ایک کسی امید پہ ابھی تک آواز دے رہے ہیں۔ جنجھوڑ رہے ہیں۔ اسے جگانے والے بھی نہیں جانتے کہ یہ قوم کب جاگے"


0
38