تم سے ملنے کا جو مہینہ تھا
مرگِ جاں کا وہ پہلا زینہ تھا
پھر میں تنہا تھا اک اذیت میں
گرچہ ہمراہ اک سفینہ تھا
سردیوں میں ملا وصال و ہجر
جسم سارے سے تر پسینہ تھا
خود کو مارا تھا پھر کئی دن تک
حاصلِ وصل یہ خزینہ تھا
روتے روتے میں سو گیا آخر
مجھ کو مرنے کا کب قرینہ تھا

0
42