جہاں تخریب کی بدعت سے پاکیزہ ہو رقصندہ |
جہاں مدہوشی کے عالم میں رہتا ہو نہ باشندہ |
جہاں ساغر کی لذت سے نہ ہو مے کش پراگندہ |
جہاں عقل و خرد سے کچھ بھی بے گانہ نہ ہو بندہ |
وہی ہے مے کدہ ساقی ! جہاں تعمیرِ ہستی ہو |
جہاں شام و سحر آباد ساقی ! دل کی بستی ہو |
کہیں ہے فرقہ کہیں جماعت کہیں ہے مسلک کا دور دورہ |
کہیں وہابی کہیں ہے سلفی یہ کیا ہے اسلامیوں کا جھگڑا |
عرب کی آنکھوں میں کھٹکے ایراں ، شیعہ کو سنی نہیں گوارا |
انہیں خرافاتِ مسلکی نے کیا ہے ملت کا غرق بیڑا |
نگاہِ عالم میں ایک ہیں ہم، ہے دشمنِ جاں جہاں ہمارا |
ہو " ما أنا " پر اساسِ ملت، ہلالی پرچم نشاں ہمارا |
ہے تفاخر کا مرض خونِ عرب میں بھی برا |
یہ جراثیم ہے اب خونِ عجم میں بے شمار |
ان بے چاروں کو بھلا کون بتائے یہ مرض |
کس بنا پر ہیں یہ خوش فہم تفاخر کے شکار |
وہ عرب ہے کہ ہوا قرآں بھی نازل اس میں |
تو عجم ہے کہ نہیں زیب تجھے ایسا شعار |
مقامِ ملتِ بیضا ہنوز پنہاں است |
ز کور چشمکِ تو بے خبر اے بو العجبی است |
تو چہ می دانی اے غافل ! رموزِ شرعِ مبیں |
گو گفت شاعرِ مشرق، حسین بو العجمی است |
بگو ایں بر سرِ منبر تو برملا شاہؔی ! |
نے ایں طریقہ و انداز مصطفائی است |
آہ ! یہ نظارۂ دل سوز محشر کی گھڑی |
کیسی کیسی شان و شوکت خاک میں یوں مل گئی |
آبروئے دینِ احمدؔ آج خاکستر ہوئی |
یہ بلند و بام قامت کیسے یکسر گر پڑی |
تھا کبھی آباد انہیں سے یہ جہان رنگ و بو |
آج لیکن ہرطرف ہے شور و غوغا ہاۓ و ہو |