اک ضبطِ مسلسل ہے اذیت کی کہانی |
ہے مجھ پہ گراں بار ہر اک لمحہ جوانی |
یہ عمرِ رواں شاق ہے کس طور پہ مجھ پر |
کس کس پہ ہویدا میں کروں دردِ نہانی |
یہ دورِ جنوں مہر و وفا کا متلاشی |
ہر پل یہ گذرتا ہے مری جاں پہ گرانی |
کب تک میں اسے زہد و تصوف میں لگاؤں |
سچ ہے کہ ہے یہ شوخ حسینوں کی دِوانی |
گو خود کو دکھاتا ہوں میں اک پیرِ جواں سال |
لیکن کہ ہوں میں مجنوؔں و فرہادؔ کا ثانی |
ہرآن کہ ہوں بحرِ خیالات میں غرقاب |
کچھ یاد نہیں ساحلِ فطرت کی نشانی |
حاصل نہیں کچھ مجھ کو سکوں ، حال ہے جیسے |
پربت سے اترتے ہوئے دریا کی روانی |
دل درد کے دریا میں کہیں ڈوب سا جاتا |
ہر وقت ستاتی ہے جو مستانی و جانی |
اب کیا میں کہوں حاصلِ مدہوش جوانی |
شاید کہ یہ ہنگامۂ محشر کی ہے ٹھانی |
ہے ظاہر و باطن میں تباین کی سی نسبت |
کہ دل میں ہے کچھ اور ، ہے کچھ اور زبانی |
اس رندِ بلا نوش کی خواہش ہے کہ ساقی ! |
پیمانۂ ہستی میں صبوحی دے پرانی |
آجائے اسی راہِ وفا پر یہ جواں سال |
میں نے بھی اے شاہؔی! کی بہت اشک فشانی |
مل جائے جواں دل کو مرے جینے کا ساماں |
ہو شمعِ الہی مرے دل میں بھی فروزاں |
معلومات