کیا کیا لکھوں میں اے دل ! الفت کے باب میں |
شب بے قرار گزرے دن اضطراب میں |
احساس شرمساری رہتا ہے رات دن اب |
کوتاہیاں ہوئی جو ان کی جناب میں |
ڈرتا ہوں لحظہ لحظہ رہتا ہوں مضطرب سا |
یونہی گزر رہے ہیں دن پیچ و تاب میں |
دل کی جوان رت میں بہکے قدم جو اپنے |
پل پل ہوا میں رسوا عہدِ شباب میں |
اک اجنبی سی وحشت رہتی ہے مجھ پہ طاری |
گزرا نہ کیا کیا مجھ پر اس انتخاب میں |
یہ کیا کہ چشم نم ہے دل میں بپا ہے محشر |
اک حشر کا ہے میداں اور میں عذاب میں |
راحت سکون فرحت کیف و سرور و مستی |
نایاب ہیں یہ لذت صہبا و ناب میں |
اے دل کے پاسبانو ! کوئی مجھے بتاؤ |
کیسے قرار پاؤں یہ گن مجھے سکھاؤ |
معلومات