کیا کیا لکھوں میں اے دل ! الفت کے باب میں
شب بے قرار گزرے دن اضطراب میں
احساس شرمساری رہتا ہے رات دن اب
کوتاہیاں ہوئی جو ان کی جناب میں
ڈرتا ہوں لحظہ لحظہ رہتا ہوں مضطرب سا
یونہی گزر رہے ہیں دن پیچ و تاب میں
دل کی جوان رت میں بہکے قدم جو اپنے
پل پل ہوا میں رسوا عہدِ شباب میں
اک اجنبی سی وحشت رہتی ہے مجھ پہ طاری
گزرا نہ کیا کیا مجھ پر اس انتخاب میں
یہ کیا کہ چشم نم ہے دل میں بپا ہے محشر
اک حشر کا ہے میداں اور میں عذاب میں
راحت سکون فرحت کیف و سرور و مستی
نایاب ہیں یہ لذت صہبا و ناب میں
اے دل کے پاسبانو ! کوئی مجھے بتاؤ
کیسے قرار پاؤں یہ گن مجھے سکھاؤ

1
27
شکریہ صاحب

0