عجب ہے درویش خو شہنشاہ ، لباسِ شاہی میں پارسائی |
ہیں شان اس کے فلک نشیں سے طریق اس کے ہیں مصطفائی |
ہے کس روایت کے پاسباں کا یہ نام " اورنگزیب " شاہؔی |
ہزاروں گردوں رکاب جس کے قدم گہِ محوِ جبہ سائی |
کیا شان و شوکت جلال وعظمت کیا جاہ و حشمت شکوہ وسطوت |
کہ ہیبتِ جنبشِ نظر سے ہے صحرا ، ذرہ ، پہاڑ ، رائی |
تھی ایک مدت سے بحرِ ہندی کے پیچ و خم میں سفینۂ دیں |
وہ ناخدا ناخدا عجب ہے ، ہے بے نظیر اس کی نا خدائی |
کہ کاروانِ مغل کے حق میں وہ خضرِ رہ سے بھی خوب تر تھا |
تھی اس کےدم سےمغل کےصحرا کےذرےذرے میں کبریائی |
میں اس شہنشاہ کا شاہ زادہ ہوں جس کی شاہی میں تھی فقیری |
فلک نشیں ، گردوں آستاں تھا مگر رہِ حق کا آشنائی |
کہ جس شہنشاہ نے تیری خاطر کیے رہے کسرِ شانِ شاہی |
اسی شہنشاہ کا شاہ زادہ حضورِ حق میں ہے التجائی |
خدایا ! مجھ کو بھی تو عطا کر جلالِ اورنگزیبؔ اب کی |
کہ پھر ضرورت ہیں " ہندی دیں " کی وہی سلاطینِ ایشیائی |
معلومات