عجب قحط الرجالی است بیاباں ہم ندارد باد
نہ دریا موج می دارد نہ طوفاں غوغۂ افتاد
کجا از جوۓ شیر آید کجا از جذبۂ سیماب ؟
نہ صحرا مجنوۓ دارد نہ دارد کوہ ہم فرہاد
ستم ہاۓ ستم ایں کہ کسے شکوہ نمی شنود
سیہ بختی ازیں دنیا کسے را کس نہ خواہد داد
نمی دانم مقامِ خود دریں دنیائے خاک و خوں ست
ولیکن پاک خواہم کرد ہر عالم ز استبداد
سبق حاصل شود ایں از حکایاتِ فلسطینی
دلے کہ بے خطر باشد نیاید پنجۂ صیّاد
نشانِ مردمانِ ملتِ بیضا ہمی شاہیؔ
نگاہِ "ل ا تذر" دارد ، زباں " لا یخلف المیعاد "

2
18
اقبال کامل (مؤلفہ عبد السلام ندویؒ ) کے طفیل حالیہ دنوں ذہن فارسی دانی کی طرف راغب ہو رہا ہے اس لیے اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود آپ سے درخواست کی جاتی ہے حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بقدر ضرورت اصلاح بھی فرمائیں ؂

0
شعر و شاعری کے تعلق سے عام مزاج یہ پایا جاتا ہے کہ پہلے زبان و بیان پر مکمل دسترس حاصل ہو پھر اس میدان میں قدم رکھا جائے جبکہ اس سلسلے میں اپنا مزاج " قطرہ قطرہ دریا می شود " ہے کہ لکھتے رہو اور سیکھتے رہو ؂

. شاہی ارریاوی