عجب ہے قدرت کی پردہ داری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
بڑھی ہے پھر آج بے قراری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
نہ شورشِ دل سکوں طلب ہے ، نہ راحتِ جاں جنوں طلب ہے
ہوا ہے مجھ پر کیا رمز طاری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
ہے سونا سونا سا گلشنِ دل ، نہ چڑیا چہکے ، نہ پھول مہکے
خزاں رسیدہ ہے کیاری کیاری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
نہ ضبطِ آہ و فغاں ہے مجھ میں ، نہ تابِ دیدارِ جاں ہے مجھ میں
یوں کی ہے آنکھوں نے اشک باری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
کبھی جو فرقت میں لوٹ آۓ شکیبِ دل کو ، قرارِ جاں تو
لٹادوں تجھ پر میں دنیا ساری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
ہے تیری آمد کا دل کو دھڑکا ، ہر ایک آہٹ پہ تیرا کھٹکا
اسی تجسس میں شب گذاری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
ترے سفر کا میں تنہا راہی ، حیاتِ دشوار تر گذاری
نہ چارہ جوئی ، نہ غم گساری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
ہزاروں دل کا مداوا بن کر اے راحتِ جاں ! تو لوٹ آ اب
کروں میں کب تک یوں آہ و زاری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے
چلے بھی آ اب اے شمعِ محفل کہ بزمِ شاہؔی ہے تجھ سے روشن
رہے گی کب تک یہ سوگواری جو ذکر تیرا ہے بعد تیرے

1
31
شکریہ محترم منتظمین