محبت ہمیں ہے ارومہ صنم سے
مگر دور ہیں ہم نگاہِ کرم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
بتائیں گے کیا کیا ستمگر کے بارے
نہ جانے کیوں کرتی ہے نفرت وہ ہم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
قیامت وہ ڈھاۓ دلِ ناتواں پر
پریشاں ہے اس کے یہ دلکش ستم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
زمانے کا مارا ہوا ایک مجنوں
کہ آشفتہ سر ہوں پریشاں ہوں غم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
وصالِ ستم گر مجھے بھی عطا ہو
کہیں مر نہ جاؤں میں ہجرِ صنم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
مری خستہ حالی کا اب پوچھئے نا
غزل لکھ رہا ہوں میں ٹوٹے قلم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے
کہیں آپ کو بھی نہ شکوہ ہو شاہیؔ
ذرا بچ کے چلیے مرے محترم سے
قسم سے قسم سے قسم سے قسم سے

1
44
شکریہ محترم